Justuju Tv جستجو ٹی وی

Friday, March 6, 2009

ترجمان فطرت: مولانا محمد ابوبکر مصوّر



تبصرہ ء بصیرت افروز
از: احسن مارہروی

مورخہ: ۱ اکتوبر ۱۹۳۴

کم و بیش ۱۳، ۱۴ برس سے مجھے عروس البلاد، بمبئی کے جواں ہمت، پاک صورت، اور نیک سیرت، مجسمہ ءحسن و خوبی، مولانا محمد ابوبکر صاحب مصوّر سے جن کی نفسیاتی حسّیات اور محاکاتی جذبات نے بجا طور پر "ترجمان فطرت" کا خطاب تفویض کیا ہے، تعارف کا شرف حاصل ہے۔

اس مدّت میں تین مرتبہ ایسے موقع ہاتھ آئے کہ چند روز بمبئی میں مقیم رہ کر موصوف کی ملاقاتوں اور پر لطف باتونکی بدولت ان کے مزاج، انکی طبعی افتاد، اور انکی صحت مذاق کا ایک حد تک مطالعہ کیا۔ پہلی ہی ملاقات میں جبکہ ریحان جوانی کی بہار آفرینیاں اکثر نوجوانوں کو اپنے سحر طراز مناظر سے دیوانہ ء رنگ و بو  بنادیتی ہیں، مجکو جناب مصوّر کی صورت و سیرت کا نقشہ ع: "بہمت جوان، و بہ تدبیر پیر" کا نمونہ نظر آیا۔ اور انکا عنفوان شباب اس شعر کا مصداق: ۔۔
 
بالائے سرش زہوشمندی
می تا فت ستارہ  ء  بلندی

ابتدائی تعارف کے بعد، ۱۲، ۱۳ برس تک، نصف ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران میں مختلف مطبوعات کے ذریعے ان کا منظوم کلام اشاعت پذیر ہوتا رہا، اور کبھی کبھی مجھے اس کے مطالعہ کا موقع ملتا رہا۔ حسن اتّفاق سے امسال دو مرتبہ مجھے بمبئی آنے کا موقع ملا۔ اس مدّت قیام میں تقریباً روزانہ انکی مسافر نوازیوں نے ہم کلامی و ہم نشینی کی دولت بخشی۔ اور اسی کے ساتھ یہ قوت روح بھی کہ وقتاً فوقتاً اپنے بلند پایہ کلام سے ایک بے مایہ کو لذت یاب ہونے کی نعمت عطا کی، ان ملاقاتوں میں ان کی روز افزوں وسعت معلومات اور رفعت خیالات دیکھکر حیرت ہوئی کہ باوجود اپنی گوناگوں مصروفیت اور کاروباری انہماک کے ۳۲، ۳۳ برس کی عمر میں، میدان ادب کے اتنے مراحل طے کرچکے ہیں، جسمیں بڑے بڑے پامرد رہ نوردوں کو اپنی عمریں گزارنا پڑتی ہیں۔ سچ کہا ہے: ۔۔

ایں سعادت بزور بازونیست ۔۔۔۔۔ تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

ایک مشہور مقولہ ہے کہ "اگر در خانہ کس ست، یک حرف بس است" ۔۔ یعنی سننے والوں میں اگر ایک سننے والا بھی مستمع صحیح کی حیثیت رکھتا ہے تو سنانے والے کو اپنے کلام کی پوری داد مل جاتی ہے۔ اس بنا پر مندرجہ بالا انتخاب مبصرین بلند نظر کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ اب میں بغیر کسی تشریح و تصریح کے چند اشعار اور نقل کرتا ہوں، اور ان کے نقد و نظر کو ناظرین خوش مذاق کے انصاف پر چھوڑتا ہوں: ۔۔

مرے رونے پر گریاں اک جہاں ہے
 یہ کیسا؟ ابر رحمت امتحا ں ہے

جہاں حد نظر تک دیکھتا ہوں
 زمیں پر آسماں ہی آسماں ہے

انہیں مژدہ جو خوش ہیں زندگی سے 
 ہمیں تو موت عمر جاوداں ہے

مشرف اسکے جلوے سے مصوّر
زمیں ہے، آسماں ہے، لامکاں ہے


خدا جانے کس کو نظر ڈھونڈتی ہے 
 ادھر ڈھونڈتی ہے، ادھر ڈھونڈتی ہے

کوئی ہو جو پرسان تو دریا بہادے 
 سہارا مری چشم تر ڈھونڈتی ہے

مری خاک برباد ہوکر جہاں میں
 کوئی قدردان ہنر ڈھونڈتی ہے

مری عقل تاحدّ امکان عالم 
 اصول حیات بسر ڈھونڈتی ہے

مری   خاک   بعد   فنا   اے مصوّر
کسی   کو سر رہگذر ڈھونڈتی ہے

رکھ دے جبین عجز سر آستاں کوئی
 پھر مہرباں کوئی ہو کہ نا مہربان کوئی

غم بھی ہے بے ثبات، خوشی بھی ہے بے ثبات 
 دنیا میں کیا سمجھکے رہے شادماں کوئی

اے دل تو اس جہاں میں وہ منزل تلاش کر
 گزرا نہ ہو جہاں سے کبھی کارواں کوئی

زمانہ ہورہا ہے متحد میرے مٹانے پر 
 مجھے دیکھو کہ اب چھایا ہوا ہوں میں زمانے پر

ابھِی اہل وطن دل سے بھلادیں جسقدر چاہیں
 بہت یاد آئونگا انکو وفائیں یاد آنے پر

کہاں ہے اے جمود مستقل، زنجیر پا بن جا 
 وہ آمادہ ہیں مجکو اپنے مرکز سے ہٹانے پر

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

نظریں شگفتہ پھولوں پہ ہیں، یہ خیال ہے
 بجلی اسی پہ گرتی ہے جو نونہال ہے

حاصل ہو ضبط نفس میں جسکو کمال نفس 
 اے ہم نفس وہ زندگی ء لازوال ہے

سبزہ زبان عجز سے کہتا ہے رہ رو ! ۔
 سرسبز ہے  وہی جو یہاں پائمال  ہے

رگ رگ میں اسکی دوڑتی پھرتی ہے روح عشق 
 ہر ذرہ کائنات کا محو جمال ہے

اپنے فریب حسن نظر کو میں کیا کہوں 
 دشمن کو دیکھتا ہوں مرا ہمخیال ہے

اے ساز درد چھیڑنے والے مجھے نہ چھیڑ
 میرا ملال سارے جہاں کا ملال ہے

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

تصورات مصوّر کا اتنا انتخاب اور اس قدر لب لباب، ارباب بینش اور اصحاب دانش کی دعوت نظر، اور لذت سماعت کے لیے کافی ہے۔ اس سے زیادہ دراز نویسی بار خاطر ہوجائیگی۔ آخر میں اتنا اور کہنا ہے کہ دنیا میں کوئی معاملہ کوئی قضیہ اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسپر بلا استثناء تمام اشخاص ہم خیالی کے ساتھ متحد ہوجائیں۔ بہت ممکن ہے کہ مذکورہ ء بالا دفع دخل مقدر کے بعد بھی بمصداق ۔۔۔ عیب نماید ہنرش در نظر ۔۔۔ تبصرہ نویس کی تقدیررعایت بیجا کے الزام سے نہ بچ سکے۔ اسکا جواب حضرت مصّور ہی کی زبان سے دے کر خاموش ہوتا ہوں: ۔۔

مصوّر مجکو فرصت کب ہے اپنی عیب جوئی سے
کمال     اپنا   نثار جراء ت   نقا د   کرتا   ہوں

تبصرہ ء رواروی
از: احسن مارہروی


ہوم پیج پر جائیں:.





عرض ناشر:

احسن مارہروی


پیدائش:1872ء وفات:1940ء

اردو شاعر۔ سید شاہ علی احسن۔ مارہرہ (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ اردو ، فارسی ، اور عربی خانقاہ برکاتیہ میں پڑھی جس کی اپنی ایک بڑی لائبریری تھی۔ 1893ء میں داغ دہلوی کے شاگرد ہوئے اور ان سے اصلاح لینے لگے۔ 1895ء میں ماہوار گلدستہ ریاض سخن جاری کیا۔ 1898ء میں مارہرہ سے حیدر آباد دکن چلے گئے۔1904ءمیں لاہور آئے اور لالہ سری رام کے تذکرہ خمخانہ جاوید کا مسودہ لکھا۔ بعدازاں استاد داغ کی یاد میں رسالہ فصیح الملک جاری کیا۔ 1926میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے۔